تخیل اور انتظار

Nazar Hussain
Basic Drift
Published in
2 min readJun 8, 2020

--

یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا کچھ ہے

اگر وقت کو ایک پھول تصور کر لیں تو سال اس کے پتیاں ہیں جو ایک ایک کر کے الگ ہوتی رہتی ہیں۔ پھول کی خوبصورتی ایک کونپل سے ہوتی ہوئی جوانی کی طرح ڈھلتی جاتی ہے ۔ بقا سے فنا کا یہ سفرسیل رواں کی طرح دواں رہتا ہے، نا کوئی آج تک اُس کو روک سکا اورنہ یہ رُک سکتا ہے۔ مگرکچھ سال ، پھول کی اُس پتی جیسے ہوتے ہیں کہ جن کے گرنے کے بعد پھول کی ہیئت ہی بدل جاتی ہے، پھول ایک اکائی کی پہچان سے ہٹ کر صرف کچھ پتیوں کی حیثیت لے لیتا ہے۔

وہ لمحہ میری زندگی میں تین سال پہلے رونما ہوا جس کے بعد زندگی بس سالوں کی حیثیت اختیار کر گئی جو ایک ایک کر کے گزر تے جا رہے ہیں۔ آج کے دن میری لاڈلی اور میری لخت جگر حجاب فاطمہ کی کونپل بغیر کھلے میرے گلشن سے جنت کے باغوں کو کوچ کر گئی۔ رسا چغتائی سے کچھ الفاظ مستعار۔

جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اک چراغ بُجھتا ہے ، اک چراغ جلتا ہے

سوچتا ہوں آخرکیوں روشنی نہیں ہوتی
داغ بھی اُبھرتے ہیں، چاند بھی نکلتا ہے

کیسے کیسے ہنگامے اُٹھ کے رہ گئے دل میں
کچھ پتامگر ان کا آنسوؤں سے چلتا ہے

کچھ لمحے آپ کے اندر ایسے سرائیت کر جاتے ہیں کہ جیسے اپنی تمام تر جزویات کے ساتھ ایک عکس بن کر فریم کروا دیئے گئے ہوں۔ اور جب ایسے فریم آپ کے تخیل کے درو دیوار پہ لٹکتے رہیں تو وقت گزارنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ لمحہ، وہ شور ، وہ ہوا ، وہ مٹی کی خوشبو، وہ چہرہ، وہ افسردگی اور وہ بے اختیاری، ناجانے اور کتنے سال مصلوب کیئے رکھیں۔ وہ تخیلی طاقت جو ہمیشہ کشش اور دلکشی کا باعث رہی، کبھی کبھار عذاب سی لگتی ہے ۔ اُن لمحوں کو دُھندلانے ہی نہیں دیتی۔ کچھ سال پہلے ایک مضمون میں، میں نے لکھا تھا کہ یاد جڑواں عمل ہے کہ جس کےدوسرے سرے پہ بھولنا لکھا ہے۔ آپ یاد کرتے ہیں، بھولتے ہیں، بھولتے ہیں، یاد کرتے ہیں۔ بھولنا یاد کو تکلیف دہ نہیں دیتا، اور یاد اُن لمحات کو بھولنے نہیں دیتی۔ مگر تخیل کس طرح ان دوعوامل کی منتقلی کو تکلیف دہ بنا دیتا ہے یہ معلوم نہیں تھا۔

خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے

مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی
درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

یاد اور تخیل کی آپس کی نوک جھوک میں جو چیز رہ جاتی ہے وہ انتظار ہے، ملنے کا انتظار۔ بچوں کی پرورش، ذمہ داریوں کا بوجھ ، دن کی مصروفیت انتظار کا احساس کم کر دیتی ہے مگر رات ہوتے ہیں سب پیڑائے اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ صرف انتظار کی طرف مرکوز ہو جاتے ہیں۔ سانس کی ڈوڑ، نا جانے کتنی لمبی ہے مگراُس کے دوسرے سرے پہ میری بیٹی کھڑی ملے گی، اور اسی انتظارمیں وقت کے پھول کی پتیاں گرتی جا رہی ہیں۔

کسے یقین کہ تم دیکھنے کو آؤ گے
اخیر وقت مگر انتظار اور سہی

--

--

Experienced programmer, technical designer and technology enthusiast. Exploring the blockchain industry since few years. Working at ChainSafe to build web3.